دنیا کی تاریخ میں کچھ ایجادات ایسی ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کی سمت ہی بدل دیتی ہیں۔ موبائل فون انہی میں سے ایک ہے۔ کبھی رابطے کے لیے خطوط، ٹیلی گرام اور لینڈ لائن فون پر انحصار تھا، مگر اب موبائل فون ہے۔ ایک ایسی چھوٹی سی ڈیوائس جس نے انسان کے رہن سہن، سوچنے سمجھنے، کام کرنے، بات کرنے اور یہاں تک کہ جینے کے انداز کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کبھی یہ محض رابطے کا ذریعہ تھا، لیکن آج یہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ صرف ایک چھوٹا سا آلہ ہماری پوری دنیا بن چکا ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ “موبائل” خود “حرکت پذیر” کے معنی رکھتا ہے — یعنی ایک ایسا فون جو آپ کے ساتھ چلتا پھرے۔ یہی وہ تصور تھا جس نے انسان کو پابندیوں سے آزاد کر دیا، کہ اب بات کرنے کے لیے کسی جگہ بیٹھنا یا کسی آلے سے بندھا رہنا ضروری نہیں رہا۔
یہ مضمون اسی تبدیلی کا ایک غیر جانبدار تجزیہ ہے — جس میں ہم دیکھیں گے کہ موبائل فون نے ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح متاثر کیا ہے: مثبت طور پر بھی اور منفی انداز میں بھی۔
رابطے کا انقلاب
موبائل فون نے سب سے پہلا انقلاب رابطے کے میدان میں برپا کیا۔ وہ زمانہ یاد کریں جب خط کے جواب کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر لینڈ لائن آئی اور چند منٹوں میں بات ممکن ہوئی، لیکن موبائل فون نے فاصلے ختم کر دیے۔ آج دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ایک انسان دوسرے سے چند لمحوں میں نہ جڑ سکے۔ واٹس ایپ، زوم، فیس ٹائم اور بے شمار ایپس نے رابطے کو آواز، ویڈیو اور تحریر کے ہر ممکن انداز میں آسان بنا دیا ہے۔
معلومات تک فوری رسائی
موبائل فون نے انسان کو علم و معلومات کی دنیا سے براہِ راست جوڑ دیا ہے۔ ایک کلک پر خبریں، موسم، تحقیق، سبق، راستہ — سب کچھ آپ کی ہتھیلی پر ہے۔ جہاں کبھی معلومات کے لیے لائبریری جانا پڑتا تھا، اب گوگل یا یوٹیوب کھولنے سے علم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اسی طرح موبائل نے تعلیم کو ڈیجیٹل بنا دیا ہے — آن لائن کلاسز، ویڈیوز، اور کورسز نے سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔
آج کا کاروباری نظام موبائل کے بغیر نامکمل ہے۔ آن لائن شاپنگ، موبائل بینکنگ، ڈیجیٹل والٹس، اور ای کامرس نے کاروبار کے دروازے سب کے لیے کھول دیے ہیں۔ ایک چھوٹا کاریگر بھی اب اپنی مصنوعات کو فیس بک یا انسٹاگرام کے ذریعے دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی موبائل فون نے لاکھوں نوجوانوں کو فری لانسنگ، آن لائن بزنس، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے میدان میں لایا ہے۔
سماجی اثرات — رشتے، رویّے اور تنہائی
موبائل فون نے جہاں انسانوں کو قریب کیا، وہیں ان کے درمیان فاصلوں کی نئی دیواریں بھی کھڑی کر دیں۔ اب ایک ہی گھر میں بیٹھے افراد ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے اپنی اپنی اسکرینوں میں گم ہیں۔ سوشل میڈیا نے جذباتی تعلقات کو لائکس اور کمینٹس میں بدل دیا ہے۔ نوجوان نسل حقیقی میل جول کے بجائے ورچوئل دنیا میں زیادہ وقت گزارتی ہے۔ دلچسپ مگر افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات یہ آلہ ہمیں جھوٹ بولنے یا حقیقت چھپانے پر مجبور کر دیتا ہے —ہم جہاں ہوتے ہیں، وہاں نہیں بتاتے، اور بتاتے ہیں کہ کہیں اور ہیں۔ یہ معمولی لگنے والی عادت دراصل اعتماد اور رشتوں کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔ بی بی سی اردو کے ٹیکنالوجی سیکشن میں شائع تجزیوں کے مطابق، موبائل فون نے معاشرتی رشتوں کی نوعیت بدل دی ہے۔ جہاں اس نے لوگوں کو ایک عالمی کمیونٹی میں جوڑا، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اب انسان اپنے آس پاس موجود افراد سے زیادہ اسکرین پر موجود لوگوں سے جڑا محسوس کرتا ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جسے سماجی ماہرین "ڈیجیٹل تنہائی" قرار دیتے ہیں۔
نوجوان نسل اور موبائل کلچر
آج کا نوجوان موبائل فون کے بغیر خود کو نامکمل سمجھتا ہے۔ اسمارٹ فون اب شناخت کا حصہ بن چکا ہے۔ سیلفیز، شارٹ ویڈیوز، آن لائن گیمنگ، اور چیٹ کلچر نے نوجوانوں کی سوچ، زبان اور رہن سہن سب بدل دیا ہے۔ جہاں اس نے اظہارِ خیال کے نئے دروازے کھولے، وہیں توجہ کی کمی، نیند کی کمی اور مطالعے سے دوری جیسے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ کوا چلا حنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا والی بات ہوگئی ہے۔ جب نیا نیا موبائل آیا تو چیٹنگ کے لیئے لوگوں نے انگریزی زبان میں اردو لکھنی شروع کی جس کو پہلے تو پڑھنا اور سمجھنا مشکل تھا مگر اب تو اتنا آگے نکل گئے ہین کہ ہم اپنی زبان اردو لکھنی بھول ہی گئے ہیں۔
تعلیم میں مثبت اور منفی اثرات
موبائل فون نے تعلیم کے شعبے میں انقلابی سہولتیں پیدا کی ہیں۔ آن لائن کلاسز، ای لائبریریز، اور لیکچر ویڈیوز نے سیکھنے کے طریقے بدل دیے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طلبہ کی توجہ بٹنے لگی ہے۔ اب وہ مطالعے کے دوران بھی موبائل پر نوٹیفکیشن چیک کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کی توجہ متاثر ہوتی ہے۔ اساتذہ کے مطابق، طلبہ اب معلومات جلد حاصل کر لیتے ہیں لیکن گہرائی سے سمجھنے کی عادت کم ہو رہی ہے۔
صحت پر اثرات۔
طبی ماہرین کے مطابق موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ نیلی روشنی آنکھوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے، نیند کے نظام کو متاثر کرتی ہے، اور طویل وقت تک فون تھامنے سے گردن و کلائی کے درد عام ہو گئے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق موبائل فون کا مسلسل استعمال اضطراب، اداسی اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ جب ہم کسی محفل یا مجلس میں جائیں تو اپنے موبائل فون کو بند کردیں یا اس کو ایروپلین موڈ پر کردیں تاکہ اس میٹنگ کے دوران کسی قسم کی دخل اندازی نہ ہوسکے۔ نماز کے دوران مساجد میں ایسی ایسی رنگ ٹون سننے کو ملتی ہیں کے ساری نماز کا مزہ خراب ہوجاتا ہے۔ہسپتال مین مریض تنگ پڑتے ہیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے ڈرائیور حضرات کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ سڑک پر پیدل چلتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتے وقت بعض اوقات حادصات پیش آجاتے جو کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر اتنی مجبوری ہے تو ایک طرف کھڑے ہو کر فون سن لیں۔
سوشل میڈیا اور معلومات کا بوجھ
ہر شخص اب ایک ڈیجیٹل رپورٹر بن چکا ہے۔ خبریں، تصاویر اور ویڈیوز لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہیں، چاہے وہ درست ہوں یا غلط۔۔ یہی وہ پہلو ہے جہاں موبائل فون نے معاشرتی چیلنج پیدا کیے ہیں ۔ جھوٹی خبریں، نفرت انگیز مواد، اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔
ذمہ دارانہ استعمال — آداب اور احتیاط
خواتین اور موبائل کا استعمال۔
موبائل فون نے خواتین کو سماجی و معاشی سطح پر زیادہ فعال بنایا ہے۔ اب وہ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، کاروبار کر سکتی ہیں، اور اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سوشل دباؤ اور پرائیویسی کے خدشات جیسے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔ خواتین کے لیے ڈیجیٹل دنیا نے موقع بھی دیا ہے اور چیلنج بھی۔
موبائل فون اب محض ایک آلہ نہیں بلکہ ایک عادت بن چکا ہے۔ کئی لوگ گھنٹوں صرف سوشل میڈیا پر اسکرول کرتے رہتے ہیں۔ یہ عادت اتنی مضبوط ہے کہ جب فون ہاتھ سے چھوٹ جائے تو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ اسے ماہرین نے "ڈیجیٹل ایڈکشن" یعنی ڈیجیٹل نشہ کا نام دیا ہے۔ یہ نشہ وقت کو چُرا لیتا ہے — انسان کے پاس نہ مطالعے کے لیے وقت بچتا ہے، نہ گفتگو کے لیے۔ زندگی کی رفتار بڑھ گئی ہے، مگر معنی کم ہو گئے ہیں۔
مستقبل کی سمت۔
سوال یہ ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟ کیا موبائل فون انسان کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لے گا؟ ممکن ہے، مگر اس کا دار و مدار ہماری سمجھ داری پر ہے۔ اگر ہم موبائل فون کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کریں — سیکھنے، آگاہی، رابطے اور ترقی کے لیے — تو یہ انسانیت کے لیے بہترین ایجاد ہے۔ مگر اگر ہم اس کے غلام بن جائیں، تو یہ آلہ ہمیں غیر حقیقی زندگی میں قید کر دے گا۔
مختصراً موبائل فون نے زندگی کو آسان بھی بنایا اور پیچیدہ بھی۔ یہ ایک ایسی ایجاد ہے جس نے ہمیں طاقتور، باخبر اور جڑا ہوا بنایا، مگر ساتھ ہی ہمیں تنہا اور مصروف بھی کر دیا۔ لہٰذا اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم موبائل فون کو اپنے کنٹرول میں رکھیں، نہ کہ اس کے کنٹرول میں آئیں۔ سیاست، تعلیم، معیشت یا معاشرت — موبائل ہر جگہ اپنا اثر رکھتا ہے، لیکن اس کا فائدہ اسی کو ملے گا جو اسے سمجھ کر، توازن سے استعمال کرے۔
کبھی کبھار ایک دوسرے کے پاس جا کر ملنا اچھا لگتا تھا، وہ بھی بغیر فون کیے۔ اب اگر فون کے بغیر کسی کے گھر چلے جاؤ تو مصیبت بن جاتی ہے۔ موبائل نے سہولت دی، مگر خودبخود ایک فاصلہ بھی پیدا کر دیا۔ قریب ہو کر بھی دور ہیں۔
قاری سے سوال
پر شائع ہوا تھا۔ goodtobest.co یہ مضمون سب سے پہلے ہماری ویب سائٹ
No comments:
Post a Comment