تعلیم اور ہنر

 آج کا نوجوان سب سے زیادہ ایک سوال پر پریشان ہے: کامیابی کے لیے زیادہ ضروری کیا ہے — تعلیم یا ہنر؟

گلی محلّے سے لے کر یونیورسٹی کے کلاس روم تک یہی بحث ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ڈگری حاصل کرو، یہی تمہارا مستقبل بنائے گی، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں ڈگری نہیں، ہنر سیکھو — یہی تمہیں آگے لے جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈگری یا تعلیم اور ہنر دونوں ضروری ہیں — بس فرق یہ ہے کہ تعلیم دماغ کو روشن کرتی ہے اور ہنر ہاتھوں کو مضبوط بناتا ہے۔ اگر دونوں ساتھ ہوں تو انسان کے لیے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔

صرف ڈگری پر انحصار کیوں خطرناک ہے؟

ہمارے ملک میں ایک عام سوچ ہے کہ اگر بچہ کسی یونیورسٹی سے ڈگری لے لے گا، تو اس کی زندگی خودبخود سنور جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ہزاروں نوجوان ڈگریاں لے کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ نہ نوکری ہے، نہ کوئی تجربہ۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ ڈگری علم دیتی ہے، مگر ہنر تجربہ دیتا ہے۔ ہر کمپنی جب کسی امیدوار کو بلاتی ہے تو پہلا سوال یہی کرتی ہے: تجربہ ہے آپ کے پاس؟ اب ایک نیا بندہ کہاں سے تجربہ لائے؟ یعنی سسٹم خود کہتا ہے ہم سکھانے والے نہیں، تجربہ کار چاہیئے۔ تو نوجوان کہاں جائے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ہنر انسان کو آگے لے جاتا ہے۔ جس کے پاس ہنر ہو، وہ نوکری کا منتظر نہیں رہتا —بلکہ خود مواقع پیدا کرتا ہے۔

ہنر — وہ ساتھی جو کبھی دھوکہ نہیں دیتا

ہنر وہ دولت ہے جو نہ چوری ہوتی ہے، نہ زنگ لگتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔ وقت بدلے، حالات بدلیں، ملک بدل جائے —اگر آپ کے پاس ہنر ہے تو آپ کہیں بھی خود کو منوا سکتے ہیں۔ ہنر صرف ہاتھ سے کام کرنا نہیں، بلکہ کسی بھی چیز کو بہتر انداز میں انجام دینے کی صلاحیت ہے۔ ڈگری سکھاتی ہے کیا کرنا ہے، ہنر سکھاتا ہے کیسے کرنا ہے۔

آج کے دور کا بدلتا منظر

پہلے زمانے میں ہنر کا مطلب صرف مستری، درزی یا مکینک ہوا کرتا تھا۔ آج ہنر کی دنیا بدل چکی ہے۔ اب ہنر میں گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، فوٹوگرافی، کنٹینٹ رائٹنگ، فری لانسنگ، کوکنگ — سب کچھ شامل ہے۔ اب آپ کے پاس ایک موبائل فون ہو تو آپ کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یوٹیوب، آن لائن کورسز، اور چھوٹے انسٹیٹیوٹس نے علم اور ہنر سب کے لیے کھول دیا ہے۔ اب کوئی بہانہ نہیں بچا کہ موقع نہیں ملا۔ اصل سوال یہ ہے — کیا آپ نے خود موقع بنایا؟

ایک کہانی جو سب کی ہے

چلیے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فیضان، ایک عام طالبعلم، بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کر رہا تھا۔ روز اپنے دوستوں سے یہی بات کرتا کہ ڈگری ہو جائے تو سکون ملے گا۔ لیکن جب ڈگری مکمل ہوئی تو نوکری نہیں ملی۔ جہاں بھی گیا، یہی جواب ملا — تجربہ چاہیے۔ مایوسی کے دن آئے، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے یوٹیوب پر ویڈیو ایڈیٹنگ سیکھنا شروع کی۔ دو مہینے میں وہ فری لانسنگ پلیٹ فارم پر کام کرنے لگا۔ پہلے چھوٹے پروجیکٹس کیے، پھر اپنی مہارت بڑھائی، اور آج وہ خود ایک کمپنی کو سروسز دیتا ہے۔ یہی فرق ہے ڈگری اور ہنر کا۔ ڈگری نے اسے علم دیا، اور ہنر نے اس علم کو زندگی میں بدل دیا۔

تعلیم کیوں ضروری ہے، اگر ہنر اتنا کارآمد ہے؟

یہ بھی سچ ہے کہ ہنر کے بغیر زندگی مشکل ہے، مگر صرف ہنر سے بھی بات مکمل نہیں ہوتی۔ تعلیم انسان کو سمجھنے، سوچنے، اور تجزیہ کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ یہ آپ کو زبان دیتی ہے، نظریہ دیتی ہے، سوچنے کی وسعت دیتی ہے۔ بہت سے ہنرمند لوگ کام تو اچھا کرتے ہیں، لیکن جب ترقی کی بات آتی ہے، تو ڈگری والے لوگ آگے نکل جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس علمی سوچ ہوتی ہے۔ اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب علم اور عمل دونوں ساتھ ہوں۔ یعنی ڈگری اور ہنر کا میل۔

ہمارے نوجوان کہاں غلطی کرتے ہیں؟

اکثر نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ڈگری کے بعد سب آسان ہو جائے گا۔ لیکن ڈگری صرف راستہ دکھاتی ہے، چلنا آپ نے خود ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے چار سال اگر صرف کتابوں اور امتحانوں میں گزر جائیں، تو وہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ اگر اسی دوران کوئی ہنر سیکھ لیا جائے تو زندگی میں انقلاب آ سکتا ہے۔

والدین کے لیے پیغام

اکثر والدین بچوں سے بس یہی کہتے ہیں: بیٹا بس پڑھائی پر دھیان دو، باقی سب بعد میں سیکھ لینا۔ لیکن وہ بعد کبھی آتا ہی نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ والدین خود بچوں کو کہیں: بیٹا، ڈگری کے ساتھ ایک ہنر ضرور سیکھو۔ اگر بچہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی عملی کام سیکھ لے تو کل اسے نہ نوکری کے لیے دھکے کھانے پڑیں گے، نہ کسی کے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا۔ وہ خود اپنا راستہ بنا سکتا ہے۔

خود انحصاری کا زمانہ ہے

یہ دور خود انحصاری کا ہے۔ اب کسی کے سہارے پر جینے کا زمانہ نہیں۔ جس کے پاس ہنر ہے، وہ اپنی محنت سے زندگی بدل سکتا ہے۔ چاہے وہ یوٹیوبر ہو، ڈیزائنر، فری لانسر یا کوئی چھوٹا کاروباری۔ دنیا اب ہنر والے ہاتھوں کو سلام کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو عزت دیتی ہے، مگر ہنر اسے کمائی، خود اعتمادی اور تجربہ دیتا ہے۔

نتیجہ — توازن ہی کامیابی کا راز ہے

آخر میں بات سادہ سی ہے: نہ صرف ڈگری کامیابی کی ضمانت ہے، نہ صرف ہنر۔ اصل جیت تب ہوتی ہے جب دونوں ایک ساتھ ہوں۔ تعلیم دماغ کی روشنی ہے، ہنر ہاتھوں کی طاقت ہے۔ جب دونوں اکٹھے ہوں تو قسمت بھی بدل جاتی ہے۔ آج کا نوجوان اگر یہ سمجھ لے کہ تعلیم اور ہنر ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ساتھی ہیں، تو وہ زندگی میں کبھی پیچھے نہیں رہ سکتا۔

آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا تعلیم زیادہ اہم ہے یا ہنر؟ اپنی رائے کمنٹ میں ضرور بتائیں۔

رائے لکھیں

پر شائع ہوا تھا۔ goodtobest.co یہ مضمون سب سے پہلے ہماری ویب سائٹ 


موبائل فون

 دنیا کی تاریخ میں کچھ ایجادات ایسی ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کی سمت ہی بدل دیتی ہیں۔ موبائل فون انہی میں سے ایک ہے۔ کبھی رابطے کے لیے خطوط، ٹیلی گرام اور لینڈ لائن فون پر انحصار تھا، مگر اب موبائل فون ہے۔ ایک ایسی چھوٹی سی ڈیوائس جس نے انسان کے رہن سہن، سوچنے سمجھنے، کام کرنے، بات کرنے اور یہاں تک کہ جینے کے انداز کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کبھی یہ محض رابطے کا ذریعہ تھا، لیکن آج یہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ صرف ایک چھوٹا سا آلہ ہماری پوری دنیا بن چکا ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظموبائلخود “حرکت پذیر کے معنی رکھتا ہے — یعنی ایک ایسا فون جو آپ کے ساتھ چلتا پھرے۔ یہی وہ تصور تھا جس نے انسان کو پابندیوں سے آزاد کر دیا، کہ اب بات کرنے کے لیے کسی جگہ بیٹھنا یا کسی آلے سے بندھا رہنا ضروری نہیں رہا۔

یہ مضمون اسی تبدیلی کا ایک غیر جانبدار تجزیہ ہے — جس میں ہم دیکھیں گے کہ موبائل فون نے ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح متاثر کیا ہے: مثبت طور پر بھی اور منفی انداز میں بھی۔

رابطے کا انقلاب

موبائل فون نے سب سے پہلا انقلاب رابطے کے میدان میں برپا کیا۔ وہ زمانہ یاد کریں جب خط کے جواب کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر لینڈ لائن آئی اور چند منٹوں میں بات ممکن ہوئی، لیکن موبائل فون نے فاصلے ختم کر دیے۔ آج دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ایک انسان دوسرے سے چند لمحوں میں نہ جڑ سکے۔ واٹس ایپ، زوم، فیس ٹائم اور بے شمار ایپس نے رابطے کو آواز، ویڈیو اور تحریر کے ہر ممکن انداز میں آسان بنا دیا ہے۔

 

معلومات تک فوری رسائی

موبائل فون نے انسان کو علم و معلومات کی دنیا سے براہِ راست جوڑ دیا ہے۔ ایک کلک پر خبریں، موسم، تحقیق، سبق، راستہ — سب کچھ آپ کی ہتھیلی پر ہے۔ جہاں کبھی معلومات کے لیے لائبریری جانا پڑتا تھا، اب گوگل یا یوٹیوب کھولنے سے علم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اسی طرح موبائل نے تعلیم کو ڈیجیٹل بنا دیا ہے — آن لائن کلاسز، ویڈیوز، اور کورسز نے سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔

 

معیشت اور کاروبار میں انقلاب

آج کا کاروباری نظام موبائل کے بغیر نامکمل ہے۔ آن لائن شاپنگ، موبائل بینکنگ، ڈیجیٹل والٹس، اور ای کامرس نے کاروبار کے دروازے سب کے لیے کھول دیے ہیں۔ ایک چھوٹا کاریگر بھی اب اپنی مصنوعات کو فیس بک یا انسٹاگرام کے ذریعے دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی موبائل فون نے لاکھوں نوجوانوں کو فری لانسنگ، آن لائن بزنس، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے میدان میں لایا ہے۔

 

سماجی اثرات — رشتے، رویّے اور تنہائی

موبائل فون نے جہاں انسانوں کو قریب کیا، وہیں ان کے درمیان فاصلوں کی نئی دیواریں بھی کھڑی کر دیں۔ اب ایک ہی گھر میں بیٹھے افراد ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے اپنی اپنی اسکرینوں میں گم ہیں۔ سوشل میڈیا نے جذباتی تعلقات کو لائکس اور کمینٹس میں بدل دیا ہے۔ نوجوان نسل حقیقی میل جول کے بجائے ورچوئل دنیا میں زیادہ وقت گزارتی ہے۔ دلچسپ مگر افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات یہ آلہ ہمیں جھوٹ بولنے یا حقیقت چھپانے پر مجبور کر دیتا ہے —ہم جہاں ہوتے ہیں، وہاں نہیں بتاتے، اور بتاتے ہیں کہ کہیں اور ہیں۔ یہ معمولی لگنے والی عادت دراصل اعتماد اور رشتوں کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔  بی بی سی اردو کے ٹیکنالوجی سیکشن میں شائع تجزیوں کے مطابق، موبائل فون نے معاشرتی رشتوں کی نوعیت بدل دی ہے۔ جہاں اس نے لوگوں کو ایک عالمی کمیونٹی میں جوڑا، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اب انسان اپنے آس پاس موجود افراد سے زیادہ اسکرین پر موجود لوگوں سے جڑا محسوس کرتا ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جسے سماجی ماہرین "ڈیجیٹل تنہائی" قرار دیتے ہیں۔

 

نوجوان نسل اور موبائل کلچر

آج کا نوجوان موبائل فون کے بغیر خود کو نامکمل سمجھتا ہے۔ اسمارٹ فون اب شناخت کا حصہ بن چکا ہے۔ سیلفیز، شارٹ ویڈیوز، آن لائن گیمنگ، اور چیٹ کلچر نے نوجوانوں کی سوچ، زبان اور رہن سہن سب بدل دیا ہے۔ جہاں اس نے اظہارِ خیال کے نئے دروازے کھولے، وہیں توجہ کی کمی، نیند کی کمی اور مطالعے سے دوری جیسے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ کوا چلا حنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا والی بات ہوگئی ہے۔ جب نیا نیا موبائل آیا تو چیٹنگ کے لیئے لوگوں نے انگریزی زبان میں اردو لکھنی شروع کی جس کو پہلے تو پڑھنا اور سمجھنا مشکل تھا مگر اب تو اتنا آگے نکل گئے ہین کہ ہم اپنی زبان اردو لکھنی بھول ہی گئے ہیں۔

 

تعلیم میں مثبت اور منفی اثرات

موبائل فون نے تعلیم کے شعبے میں انقلابی سہولتیں پیدا کی ہیں۔ آن لائن کلاسز، ای لائبریریز، اور لیکچر ویڈیوز نے سیکھنے کے طریقے بدل دیے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طلبہ کی توجہ بٹنے لگی ہے۔ اب وہ مطالعے کے دوران بھی موبائل پر نوٹیفکیشن چیک کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کی توجہ متاثر ہوتی ہے۔ اساتذہ کے مطابق، طلبہ اب معلومات جلد حاصل کر لیتے ہیں لیکن گہرائی سے سمجھنے کی عادت کم ہو رہی ہے۔

صحت پر اثرات۔

طبی ماہرین کے مطابق موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ نیلی روشنی آنکھوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے، نیند کے نظام کو متاثر کرتی ہے، اور طویل وقت تک فون تھامنے سے گردن و کلائی کے درد عام ہو گئے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق موبائل فون کا مسلسل استعمال اضطراب، اداسی اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ جب ہم کسی محفل یا مجلس میں جائیں تو اپنے موبائل فون کو بند کردیں یا اس کو ایروپلین موڈ پر کردیں تاکہ اس میٹنگ کے دوران کسی قسم کی دخل اندازی نہ ہوسکے۔ نماز کے دوران مساجد میں ایسی ایسی رنگ ٹون سننے کو ملتی ہیں کے ساری نماز کا مزہ خراب ہوجاتا ہے۔ہسپتال مین مریض تنگ پڑتے ہیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے ڈرائیور حضرات کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ سڑک پر پیدل چلتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتے وقت بعض اوقات حادصات پیش آجاتے جو کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر اتنی مجبوری ہے تو ایک طرف کھڑے ہو کر فون سن لیں۔

سوشل میڈیا اور معلومات کا بوجھ

ہر شخص اب ایک ڈیجیٹل رپورٹر بن چکا ہے۔ خبریں، تصاویر اور ویڈیوز لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہیں، چاہے وہ درست ہوں یا غلط۔۔ یہی وہ پہلو ہے جہاں موبائل فون نے معاشرتی چیلنج پیدا کیے ہیں ۔ جھوٹی خبریں، نفرت انگیز مواد، اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔

 

ذمہ دارانہ استعمال — آداب اور احتیاط

موبائل فون جتنا طاقتور ہے، اتنا ہی احتیاط کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ کسی بھی میٹنگ، نماز، یا سرکاری موقع پر فون بند یا کم از کم ایرپلین موڈ پر رکھنا نہ صرف تہذیب کا تقاضا ہے بلکہ یہ دوسروں کے وقت اور توجہ کا احترام بھی ہے۔
اسی طرح گاڑی چلاتے وقت یا کسی گفتگو کے دوران موبائل دیکھنا ایک خطرناک عادت بن چکی ہے۔ ذمہ دارانہ استعمال ہی موبائل کے فائدے کو قائم رکھ سکتا ہے۔ اگر موبائل بند نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی آواز سائیلینٹ پر کر دینی چائیے۔ اس سے دوسروں کا حرج نہیں ہوتا۔

 

خواتین اور موبائل کا استعمال۔

موبائل فون نے خواتین کو سماجی و معاشی سطح پر زیادہ فعال بنایا ہے۔ اب وہ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، کاروبار کر سکتی ہیں، اور اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سوشل دباؤ اور پرائیویسی کے خدشات جیسے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔ خواتین کے لیے ڈیجیٹل دنیا نے موقع بھی دیا ہے اور چیلنج بھی۔

 

وقت کا ضیاع اور "ڈیجیٹل نشہ"

موبائل فون اب محض ایک آلہ نہیں بلکہ ایک عادت بن چکا ہے۔ کئی لوگ گھنٹوں صرف سوشل میڈیا پر اسکرول کرتے رہتے ہیں۔ یہ عادت اتنی مضبوط ہے کہ جب فون ہاتھ سے چھوٹ جائے تو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ اسے ماہرین نے "ڈیجیٹل ایڈکشن" یعنی ڈیجیٹل نشہ کا نام دیا ہے۔ یہ نشہ وقت کو چُرا لیتا ہے — انسان کے پاس نہ مطالعے کے لیے وقت بچتا ہے، نہ گفتگو کے لیے۔ زندگی کی رفتار بڑھ گئی ہے، مگر معنی کم ہو گئے ہیں۔

 

مستقبل کی سمت۔

سوال یہ ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟ کیا موبائل فون انسان کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لے گا؟ ممکن ہے، مگر اس کا دار و مدار ہماری سمجھ داری پر ہے۔ اگر ہم موبائل فون کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کریں — سیکھنے، آگاہی، رابطے اور ترقی کے لیے — تو یہ انسانیت کے لیے بہترین ایجاد ہے۔ مگر اگر ہم اس کے غلام بن جائیں، تو یہ آلہ ہمیں غیر حقیقی زندگی میں قید کر دے گا۔

 

مختصراً موبائل فون نے زندگی کو آسان بھی بنایا اور پیچیدہ بھی۔ یہ ایک ایسی ایجاد ہے جس نے ہمیں طاقتور، باخبر اور جڑا ہوا بنایا، مگر ساتھ ہی ہمیں تنہا اور مصروف بھی کر دیا۔ لہٰذا اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم موبائل فون کو اپنے کنٹرول میں رکھیں، نہ کہ اس کے کنٹرول میں آئیں۔ سیاست، تعلیم، معیشت یا معاشرت — موبائل ہر جگہ اپنا اثر رکھتا ہے، لیکن اس کا فائدہ اسی کو ملے گا جو اسے سمجھ کر، توازن سے استعمال کرے۔

کبھی کبھار ایک دوسرے کے پاس جا کر ملنا اچھا لگتا تھا، وہ بھی بغیر فون کیے۔ اب اگر فون کے بغیر کسی کے گھر چلے جاؤ تو مصیبت بن جاتی ہے۔ موبائل نے سہولت دی، مگر خودبخود ایک فاصلہ بھی پیدا کر دیا۔ قریب ہو کر بھی دور ہیں۔

قاری سے سوال

آپ کے خیال میں موبائل فون نے آپ کی زندگی میں زیادہ آسانیاں پیدا کی ہیں یا پریشانیاں اور پابندیاں؟
اپنی رائے نیچے تبصرے میں ضرور لکھیں — کیونکہ یہ بحث اب صرف ٹیکنالوجی کی نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے مستقبل کی ہے۔

پر شائع ہوا تھا۔ goodtobest.co یہ مضمون سب سے پہلے ہماری ویب سائٹ 


وقت بچانے کے طریقے

 

روزمرہ کی یکسانیت کو توڑنے کے سادہ طریقے

زندگی کی مصروف دوڑ میں اکثر ہم یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ "وقت کہاں چلا جاتا ہے؟" دن کے چوبیس گھنٹے جیسے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں۔ ہم مصروف تو رہتے ہیں مگر آخر میں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص کام مکمل نہیں ہوا۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ مسئلہ وقت کی کمی نہیں، بلکہ وقت کے درست استعمال میں ہے۔ وقت ایک ایسی نعمت ہے جو نہ خریدی جا سکتی ہے، نہ واپس لائی جا سکتی ہے۔ اسے ضائع کرنا دراصل زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم روزمرہ کی یکسانیت اور ذہنی اُکتاہٹ کے باوجود اپنے وقت کو کس طرح بامقصد بنا سکتے ہیں؟ آئیے، اس پر بات کرتے ہیں۔

 روزمرہ کی مصروفیات میں وقت کیوں ضائع ہوتا ہے؟

ہم میں سے اکثر لوگ دن کا آغاز کسی واضح منصوبہ بندی کے بغیر کرتے ہیں۔ موبائل چیک کرنا، غیر ضروری گفتگو، یا چھوٹے چھوٹے غیر اہم کام وہ سوراخ ہیں جہاں ہمارا قیمتی وقت بہہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تھوڑی سی دیر سوشل میڈیا دیکھنا یا کسی غیر ضروری بحث میں شریک ہونا کوئی بڑی بات نہیں، مگر یہی "تھوڑی تھوڑی دیر" مل کر گھنٹوں کا وقت ضائع کر دیتی ہے۔ وقت بچانے کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہمیں جاننا چاہیے ہم کہاں وقت کھو رہے ہیں۔ جب تک ہمیں اپنی عادات کا شعور نہیں ہوگا، ہم وقت کا نظم نہیں کر سکتے۔

 یکسانیت سے پیدا ہونے والی اُکتاہٹ کو پہچانیں

ایک ہی معمول بار بار دہرانا ذہن کو تھکا دیتا ہے۔ دن کے بعد دن ایک جیسے کام، ایک ہی ماحول، ایک ہی رفتار، یہ سب ذہنی توانائی کو ختم کر دیتے ہیں۔ جب انسان کے اندر دلچسپی ختم ہو جائے تو کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اُکتاہٹ کو پہچاننا ضروری ہے کیونکہ یہی احساس ہمیں تبدیلی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر آپ کو لگے کہ آپ کے دن ایک دوسرے سے مختلف نہیں رہے، تو سمجھ لیں کہ اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔

 چھوٹے وقفوں سے ذہن کو تازگی دیں

ہم میں سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وقفہ لینا وقت ضائع کرنا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کام کے دوران مختصر وقفے دماغ کو تازہ رکھتے ہیں۔ ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ  "اگر پڑھتے وقت تھک جاوٗ تو سبجیکٹ بدل لو، اس سے بھی ایک تازگی ملتی ہے۔" یہ سادہ مشورہ زندگی بھر کارآمد آ سکتا ہے۔ جب ہم اپنے کام یا مطالعے سے اُکتا جائیں تو موضوع یا سرگرمی بدلنے سے دماغ کو نیا زاویہ ملتا ہے۔ کبھی چند منٹ کی چہل قدمی، کبھی کسی سے ہلکی گفتگو، یا محض نظریں کھڑکی سے باہر لے جانا یہ سب ذہنی تازگی کا ذریعہ ہیں۔ یاد رکھیں، تازہ دم ذہن ہمیشہ تھکے ہوئے ذہن سے زیادہ مؤثر کام کرتا ہے۔

 ترجیحات طے کریں اور غیر ضروری کاموں کو مؤخر کریں

ہم سب کے پاس ایک جیسا وقت ہے، فرق صرف ترجیحات کا ہے۔ جو شخص اہم اور غیر اہم کے درمیان فرق پہچان لے، وہی وقت بچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اپنے دن کے آغاز میں چند منٹ صرف کر کے یہ طے کریں کہ آج کے سب سے اہم تین کام کون سے ہیں۔ باقی کام اگر کل بھی ہو جائیں تو کوئی نقصان نہیں۔ کامیاب لوگ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اپنی توجہ انہی کاموں پر مرکوز رکھتے ہیں جو ان کے مقاصد سے براہ راست جڑے ہوتے ہیں۔

 نئی سرگرمیوں سے زندگی میں توازن پیدا کریں

یکسانیت کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی روزمرہ زندگی میں تبدیلی پیدا کریں۔ نئی سرگرمی یا نیا شوق انسان کو تازہ رکھتا ہے۔ جب کوئی کام بوجھ لگنے لگے تو خود کو نیا چیلنج دیں۔ کبھی کوئی نیا مضمون پڑھیں، کسی نئی مہارت کی مشق کریں، یا اپنے کام کے انداز میں معمولی سی تبدیلی لائیں۔ یہی تبدیلیاں ذہن کو متحرک رکھتی ہیں اور یکسانیت کے احساس کو ختم کرتی ہیں۔

 خود کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں

وقت بچانے کا اصل راز نظم و ضبط ہے۔ اگر آپ ہر کام کے لیے ایک واضح وقت مقرر کر لیں تو نہ صرف آپ کے دن منظم ہو جائیں گے بلکہ ذہنی دباؤ بھی کم ہوگا۔ کوشش کریں کہ سونے اور جاگنے، کھانے اور کام کرنے کے اوقات ایک مخصوص دائرے میں رہیں۔ جب جسم اور ذہن ایک ترتیب کے عادی ہو جاتے ہیں تو کارکردگی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ نظم و ضبط کا مطلب سختی نہیں، بلکہ اپنے وقت اور توانائی کی سمجھ بوجھ سے تقسیم ہے۔

 موبائل اور سوشل میڈیا کے استعمال پر قابو پائیں

یہ دور معلومات کا ہے مگر ساتھ ہی توجہ کی بربادی کا بھی۔ سوشل میڈیا کا غیر ارادی استعمال ہمارے وقت کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ ہم ایک نوٹیفکیشن دیکھنے بیٹھتے ہیں اور گھنٹہ گزر جاتا ہے۔ اگر آپ واقعی وقت بچانا چاہتے ہیں تو اپنے موبائل کے استعمال کو محدود کریں۔ دن میں مخصوص اوقات طے کریں جب آپ پیغامات یا خبریں چیک کریں۔ ایک اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ آپ غیر ضروری ایپس  کو چھوڑ دیں یا ان کے نوٹیفکیشن بند کر دیں۔ یاد رکھیں، وقت صرف تب بچتا ہے جب ہم اپنی توجہ کو محفوظ رکھیں۔

 وقت کا احترام زندگی کا احترام ہے

وقت کو قابو میں لانے کی کوشش دراصل اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔ جب ہم وقت کی قدر کرتے ہیں تو ہم دراصل خود کو بہتر بناتے ہیں۔ زندگی میں کچھ بھی مستقل نہیں، مگر وقت کا گزرنا یقینی ہے۔ جو لوگ اسے سمجھ لیتے ہیں، وہ ہر دن کو معنی خیز بناتے ہیں۔ چاہے آپ طالب علم ہوں، ملازم، کاروباری یا گھریلو فرد ہوں۔ اگر آپ نے وقت کو سنبھال لیا تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ وقت بچانا کسی سخت اصول یا فارمولے کا نام نہیں، بلکہ یہ سوچ اور رویے کی تبدیلی ہے۔ جب ہم یکسانیت کو توڑنے، خود کو منظم کرنے اور بامقصد سرگرمیوں میں شامل ہونے لگتے ہیں، تو زندگی ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔

یاد رکھیں وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ اسے تھامنے کی کوشش بے کار ہے، مگر اسے بہتر انداز میں استعمال کرنا عین دانشمندی ہے۔ زندگی مختصر ہے، مگر اگر ہم اپنے وقت کے سچے محافظ بن جائیں تو یہی مختصر زندگی بھی طویل لگنے لگتی ہے۔

اگر آپ اس بات سے متفق ہیں تو پھر نیچے دیئے گئے کومنٹ بوکس میں اپنی رائے ضرور دیں۔ یا اس سے بہتر کچھ کہنا چاہیں تو ضرور بتائیں۔

 پر شائع ہوا تھا۔ goodtobest.co یہ مضمون سب سے پہلے ہماری ویب سائٹ 


گھر کے لیے اسٹیشنری کیوں ضروری ہے؟

  یادداشت اور نظم و ضبط کی ضرورت ہم روزانہ بے شمار کاموں، باتوں اور ذمہ داریوں سے گزرتے ہیں۔ ہر چیز ذہن میں محفوظ نہیں رہتی، اس لیے چیزو...